حالاتِ
حاضرہ
کوئی
باخبر انصاف پسند اس سچائی کااعتراف کیے بغیر نہیں رہ
سکتا کہ اسلام اپنے ابتدائے قیام سے یہود ونصاریٰ کی
چیرہ دستیوں کاشکار ہوتا رہا ہے، ان دونوں قوموں نے کبھی بھی
سیرچشمی کے ساتھ مسلمانوں کے حقِ زندگی کو گوارا نہیں کیا
ہے۔ انھوں نے اپنی اسی معاندانہ خصلت کی بنا پر جبر و
تشدد اور دہشت گردیوں کے ذریعہ ہمیشہ مسلمانوں سے ان کے زندہ
رہنے کا حق چھیننا چاہا اور اپنی وحشیانہ خونریزیوں
سے ان کے نام ونشان کو کارگاہِ حیات سے مٹادینے کی کوششیں
کیں، کبھی داعیِ اسلام، محسنِ انسانیت اور پیغمبرِ
اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ و مثالی زندگی
کو تنقیص و توہین کا نشانہ بنایا، تو کبھی تحقیق
اور ریسرچ کے پرفریب عنوان سے اسلام کے اصل سرچشموں یعنی
کتاب الٰہی کی حقانیت اور حدیث نبوی (علی صاحبھا الفُ الفِ تحیہ) کی صداقت پر تشکیک و انکار کے تیر و نشتر
چلائے، کبھی اسلامی تاریخ کا حلیہ بگاڑنے کی مہم
برپا کی، توکبھی اسلام کی ہدایت آفریں تعلیمات
کی تضحیک و تشنیع کاغیرمہذب منصوبہ بروئے کار لایاگیا؛
غرضیکہ اسلام اور اس کا کلمہ پرھنے والوں کے دائرہٴ اثر و نفوذ کو تنگ سے تنگ تر بنادینے ہی
کے لیے نہیں؛ بلکہ ان کے زندہ رہنے کے حق پر شب خون مارنے کے لیے
کسی بھی تدبیر، حیلہ، مکر، فریب، سازش، افترا پردازی
اور دہشت گردی سے گریز نہیں کیاگیا، جس کا سلسلہ
تاہنوز جاری ہے، اوراسلام دشمنی کی اس جاری مہم کی
زمامِ قیادت آجکل امریکہ کے ہاتھوں میں ہے، جسے اسرائیل، یورپ
اور اقوامِ متحدہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ ان اسلام دشمن
طاقتوں نے مسلم ممالک میں جو اتھل پتھل مچارکھی ہے، وہ ہماری
نظروں کے سامنے ہے۔
ایک طرف
مسلم ممالک کی تاراجی اور مسلمانوں کی خوں ریزی کا
وحشیانہ سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کے عقیدہ
اور انھیں فکری طور پر انتشار و ہیجان میں مبتلا کرنے کی
غرض سے قرآنِ حکیم کی آیات میں چھیڑ چھاڑ کرکے نعوذ
باللہ قرآن کا جدید ایڈیشن شائع کراکر مسلم آبادیوں میں
پھیلایا جارہا ہے۔ انکارِ حدیث کی قدیم
فرسودہ مہم کو از سرِ نو زندہ کیاجارہا ہے، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت
کو مجروح کرنے کی غرض سے ویڈیوفلمیں تیار کرائی
جارہی ہیں، اسلامی تعلیمات و احکام کا مذاق اڑانے کے لیے
عورتوں سے نماز کی امامت کرائی جارہی ہے۔ اسی کے
ساتھ مستشرقین و مستغربین کی ایک فوج ہے، جس پر سالانہ
اربوں ڈالر خرچ کیاجاتا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے دل و دماغ سے
اسلامی تعلیمات کی وقعت و اہمیت کو ختم کرنے اور انھیں
دین و مذہب سے بیزار کرنے کے لیے علم و تحقیق کے نام سے
اسلامی احکام و عقاید میں شکوک و شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں،
یہ لوگ اپنے پُرفریب دعوؤں کے ذریعہ عالمِ اسلام کو یہ باور
کرانے کی سعی کرتے ہیں کہ اسلام کی چودہ سوسالہ قدیم
تعلیمات عصرِ حاضر کی تہذیب و تمدن کا ساتھ دینے سے قاصر
ہے؛ لہٰذا وقت کے تقاضا کے مطابق اسلام کی تشکیلِ جدید،
اور قرآن و سنت نیز فقہ اسلامی کی از سرِ نو تفسیر و تشریح
کی جانی چاہیے، یورپ و امریکہ کی تیار
کردہ یہ فوج دینِ اسلام کی اصل صورت اوراس کے خوب تر قالب کو
مسخ کرنے کے لیے اجتہادِ مطلق کانعرہ بلندکرتی ہے، اس کے نزدیک
اس اجتہادِ مطلق کا حق ہر اس شخص کو حاصل ہے جو کسی بھی زبان میں
قرآنِ حکیم اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تراجم
پڑھ لینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ افسوس اور حیرت تو اس
پر ہے کہ بعض مسلم تنظیمیں اپنی ناسمجھی سے ان اسلام
مخالف طاقتوں کا آلہٴ کار بنی ہوئی ہیں اور آثار واسلاف
کے حوالہ سے مسلمانوں میں مزید انتشار پھیلارہی ہیں،
یالَلعجب!
یہ
مستشرقین اوران کے تربیت یافتہ مستغربین تفسیر، حدیث،
فقہ، کلام، تصوف، سیرت، تاریخ وغیرہا اسلامی علوم و فنون
میں سلفِ صالحین، فقہائے مجتہدین، اکابر محدثین اور
علمائے دین کی اب تک کی گراں قدر خدمات اور بے مثال علمی
و دینی کارناموں کو اپنے خود ساختہ اصولوں؛ بلکہ واضح لفظوں میں
دجل و فریب کے تحت تنقید و تنقیص کا نشانہ بناتے رہتے ہیں
اور اپنے اس غیرمعقول رویہ سے اسلامی دنیاکو یہ
تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے علما کی یہ
علمی کاوشیں بحث وتحقیق کے معیار پر پوری نہیں
اترتیں؛ اس لیے یہ کسی درجہ میں بھی لائقِ
اعتنا نہیں ہیں، اپنے اس پرفریب حربہ کے ذریعہ وہ سلفِ
صالحین و علمائے دین سے امتِ مسلمہ کے رشتہ کو کاٹ دینا چاہتے ہیں؛
کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس رشتہ کے ٹوٹ جانے کے بعد ان کے دینی
رخ اور سَمتِ سفر کو سہولت کے ساتھ بدلا جاسکتا ہے۔ ان کی اس تلبیسی
مہم کو الیکٹرانک میڈیا کی ہمہ گیر شرکت حاصل ہے جس
کی وجہ سے اس کے مسموم اثرات سے دنیا کا کوئی خطہ محفوظ نہیں
ہے۔
ان تفصیلات
اور بین الاقوامی حالات و واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام اور
قوم مسلم کو ہر چہار جانب سے نرغے میں لینے کا عمل منظم طور پر پوری
قوت سے جاری ہے۔ ظاہر ہے یہ جارحانہ یورش حکومتی پیمانہ
پر ہورہی ہے تواس کا مقابلہ بھی حکومت کے پیمانہ پر ہی کیاجاسکتا
ہے؛ لیکن مسلم ممالک اور ان کی حکومتوں کا اس وقت جو حال ہے، وہ سب پر
عیاں ہے، ان ملکوں میں سے ایک اچھی خاصی تعداد کو
قدرت نے اپنی فیاضیوں سے اس قدر نوازا تھا کہ وہ آسانی کے
ساتھ اسلام کے دفاع کی طاقت و قوت فراہم کرسکتے تھے؛ مگر افسوس کہ انھوں نے
عیش کو شیوں اور خرمستیوں میں اپنا سب کچھ گنوادیا
اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ وہ خود اپنی بقا و تحفظ کے لیے غیروں
کا سہارا ڈھونڈھنے میں لگے ہوئے ہیں؛ اس لیے بجا طور پر یہ
بات کہی جاسکتی ہے کہ عصرِحاضر میں اسلام اور اس کے علم بردار ایک
ایسے سنگین بحران میں مبتلا ہیں جو اپنی مثال آپ ہے۔
ایسے ہمہ گیر بحرانی
حالات میں بظاہر یہی ایک راہِ نجات ہے کہ عام مسلمانوں کے
ایمان و عقیدہ کی حفاظت کے لیے خود اہلِ ایمان اپنے
اپنے طور پر کوشش کریں، بطورِ خاص علمائے دین عامة المسلمین سے اپنے
روابط بڑھائیں، مسلم بستیوں میں جاجاکر انھیں ایمان
و اسلام کی عظمت و حرمت سے آشنا بنائیں، اپنے کردار و عمل اور وعظ
وتذکیر سے ان کے اندر دین کی سچی لگن پیدا کردیں
اور انھیں اسلام کا ایسا گرویدہ بنادیں کہ سخت سے سخت
حالات میں بھی ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے پائے۔
اگر مسلمان واقعی معنوں میں مسلمان بن جائے تو انشاء اللہ غارتگرانِ
اسلام کی ساری سازشیں ناکام ہوجائیں گی۔ ملک
و دولت تو ایک آنی جانی چیز ہے، ہمارا اصل سرمایہ
تو ایمان واسلام ہے ۔ شاید علامہ اقبال نے ایسے ہی
موقع کے لیے یہ شعر کہا تھا۔
اگر ملک جاتا ہے ہاتھوں سے جائے
تو فرمانِ حق سے نہ کر بیوفائی
ہمیں ہماری طاقت و قوت کے
مطابق مکلف بنایا گیاہے اور بحالتِ موجودہ بلاشبہ ہمارے اندر اس کی
قدرت ہے کہ ہم مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کی جدوجہد کریں؛
اس لیے حالات کا شکوہ اوراس پرآنسو بہانے کے بجائے ہمیں اپنی
استطاعت کے مطابق جدوجہد کرنی چاہیے، اگر پوری استقامت کے ساتھ
ہم نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور عام مسلمانوں کے اندراسلام و ایمان
کی سچی وابستگی پیدا کردی تو ربّ ِکائنات آگے کی
راہیں خودکھول دیں گے۔ ارشادِ ربانی ہے: ”وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوا
فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا“۔ ہادیِ عالم صلی
اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے کام کی ترتیب یہی
بتائی ہے، مکہ کی تیرہ سالہ سنتِ نبوی علی صاحبہا الفُ الفِ تحیہ ہمارے لیے نمونہٴ عمل ہے۔
جوانو! یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے
چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزمِ سفر پیدا
***
-------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 11 ،
جلد: 97 ، محرم الحرام 1435 ہجری مطابق نومبر 2013ء